سری نگر کے نام کے پیچھے کیا راز ہے؟
زمانہ قدیم ہی سے شہروں کے نام دیوی دیوتاؤں کے ناموں پر رکھنے کا رواج رہا ہے، بغداد کو ہی دیکھ لیں جو "بغ” اور “داد” سے مرکب ہے اور اس کا مطلب ہے “بغ (دیوتا) کا عطیہ”، یہی وجہ ہے کہ بہت سے علما اسے بغداد کے بجائے “مدینۃ السلام” کہتے تھے۔
پھر لبنان کا قدیم شہر “بعلبک” بھی ہے جس کے معنی ہیں “بعل (دیوتا) کا شہر”۔ “بک” اصل میں شہر کو کہتے ہیں، خود قرآن میں مکہ کو “بکہ” کہا گیا ہے۔
اسلام کی آمد سے بہت پہلے موجودہ سری نگر میں ہندومت کا زور تھا اس لیے بہت سے علاقوں ہی نہیں پہاڑوں، دریاؤں اور چشموں کے ناموں میں سنسکرت اور ہندو یومالا کا اثر پایا جاتا ہے۔ یہی کچھ “سری نگر” سے متعلق ہے، لفظ “سری نگر” دولفظوں “سری” اور “نگر” کا مرکب ہے۔
”نگر” کا لفظ آبادی کو ظاہر کرتا ہے اسی لیے یہ مختلف شہروں کے ناموں کا جزو ہے، مثلاً “احمد نگر” اور “مظفر نگر” وغیرہ۔ آبادی محدود اور مختصر ہو تو اسے نگری بھی کہہ دیتے ہیں، جیسے کراچی میں ایک بستی “عیسیٰ نگری” کہلاتی ہے۔
لفظ “نگری” ملک کے معنوں میں بھی بولتے ہیں، مشہور محاورہ ہے”اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا”۔
خیر اب اس “سری نگر” کے “سری” کو سمجھیں۔ “سری” سے متعلق دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہندو دیو مالا میں دولت کی دیوی کا نام “لکشمی” ہے، جسے “شری دیوی” بھی کہتے ہیں۔ اسی دیوی کے نام پر کشمیر کے صدر مقام کا نام “شری نگر” ہے۔ چونکہ حرف شین اور سین آپس میں بدل جاتے ہیں اسی لیے اسے “شری نگر اور سری نگر” دونوں کہتے ہیں۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سنسکرت میں سورج کو “سوریا” اور “شری” کہا جاتا ہے، چونکہ سری نگر ایک وسیع وادی میں واقع ہے اور یہاں سورج ہمالیہ کی دیگر وادیوں کے مقابلے میں زیادہ آب وتاب سے طلوع ہوتا ہے اس لیے اسے “شری نگر” یعنی سورج کا شہر کہتے ہیں۔
ہمالیہ کو شاید انگریزی کے زیر اثر کہتے ہیں، غالباً درست لفظ “ہمالہ” ہے۔ علامہ اقبال کی کتاب “بانگ درا” کی پہلی نظم کا عنوان ہی “ہمالہ” ہے۔
اس نظم کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے:
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
اب “ہمالہ” کے لفظی معنوں پر آتے ہیں۔ سنسکرت میں برف کو “ہیم” اور گھر کو “آلہ” کہتے ہیں۔ یوں ہمالہ کا مطلب ہوا “برف کا گھر”۔
اس “آلہ” کو “شوالہ” میں بھی دیکھ سکتے ہو جس کے معنی ہیں “شیو کا گھر”۔
Comments are closed on this story.